بانال کی زندگی — کوہستان کے چراگاہوں کا موسمِ گرما
موسمِ بہار کے آغاز کے
ساتھ ہی جب برف پگھلنے لگتی ہے اور پہاڑوں کی ڈھلوانوں پر سبزہ اُگ آتا ہے، تو
کوہستان کے کچھ باسی اپنے مال مویشیوں کے ہمراہ دور دراز اور سرسبز پہاڑی چراگاہوں
کی طرف کوچ کرتے ہیں۔ ان چراگاہوں کو مقامی زبان میں "بانال" کہا جاتا ہے۔ بانال صرف چرنے کی جگہ
نہیں بلکہ کوہستانی طرزِ زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے، جہاں فطرت کے عین قریب ایک
سادہ مگر خود کفیل زندگی گزاری جاتی ہے۔
پورے موسمِ گرما کے
دوران یہ لوگ — جنہیں گاوری (کوہستانی) زبان میں بانالوج یا بانالی کہا جاتا ہے
— اپنے جانور جسے پشتو میں ڈنگر کے ساتھ ان اونچے اور سرسبز
پہاڑوں پر رہتے ہیں۔ وہاں کی ہوائیں خوشبودار، چشمے شفاف اور فضا میں گاؤوں کی
گھنٹیوں کی مدھم آوازیں گھل مل جاتی ہیں، جو ایک انوکھی موسیقی پیدا کرتی ہیں۔
جب ستمبر کا آخری ہفتہ
آتا ہے اور پہاڑوں کی ہواؤں میں خنکی بڑھنے لگتی ہے، تو یہ بانالوج اپنے مویشیوں
کے ساتھ واپسی کا سفر شروع کرتے ہیں۔ مگر واپسی سے پہلے بانال میں تیار کی گئی ایک
خاص سوغات — "شٹیر" — سب سے پہلے گاوں پہنچائی
جاتی ہے۔ شٹیر دراصل دودھ سے بنی مختلف اشیاء کا مجموعہ ہے جن میں متر، دیسی گھی، پنیر، چھون اور بگور
شامل ہیں۔ یہ تمام چیزیں نہ صرف ذائقے میں لاجواب ہوتی ہیں بلکہ سردیوں کے طویل
موسم میں غذائیت کا بہترین ذریعہ بھی سمجھی جاتی ہیں۔
شٹیر کو گاوں تک پہنچانے
کے لیے ہر بانال میں گدھے اور خچر پالے جاتے ہیں۔ ان پر سامان لاد کر یہ قافلے
آہستہ آہستہ نیچے آبادیوں کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ جب یہ شٹیر گاوں پہنچتی ہے تو
بچوں سے لے کر بڑوں تک سب کے چہرے خوشی سے کھل اُٹھتے ہیں، کیونکہ یہ صرف ایک
خوراک نہیں بلکہ پہاڑوں
کی محنت، فطرت کی سخاوت، اور کوہستانی ثقافت کی علامت ہے۔
ہم سب کو اس دن کا بے
صبری سے انتظار رہتا ہے، کیونکہ سردیوں کی لمبی راتوں میں یہی دیسی گھی، پنیر اور
چھون ہمارے کھانوں کو ذائقہ اور زندگی بخشتے ہیں۔ بانال سے واپس آنے والا ہر شخص
اور ہر شٹیر کی خوشبو ہمیں اس خوبصورت پہاڑی زندگی کی یاد دلاتی ہے جو آج بھی اپنی
اصل میں خالص اور قدرتی ہے۔
