الجنت ہوٹل کمراٹ ویلی
تحریر: گمنام کوہستانی
اگرچہ کمراٹ فارسٹ ہمارے گھر سے ڈیڑھ گھنٹے کے فاصلے پر ہیں لیکن ہمیں پچھلے دو تین سالوں میں کمراٹ جانے کا موقع نہیں ملا۔ اردو کا محاورہ ہے گھر کی مرغی دال برابر تو ہم لوگ بھی ان پہاڑوں پیدا ہوئے پلے بڑھے اس لئے باہر کے لوگوں کے بنسبت ہمیں یہاں کی قدرتی خوبصورتی اور خوشگوار آب و ہوا اتنی پرکشش نہیں لگتی۔ ان برفپوش پہاڑوں، گھنے جنگلات اور ٹھاٹھیں مارتے دریائے پنجکوڑہ کو دیکھتے دیکھتے ہم بڑے ہوگئے یہ ہم مقامی لوگوں کے لئے عام منظر بلکہ اگر سچ کہا جائے تو ایک ہی منظر بار بار دیکھ دیکھ کر ہم بیزار ہو جاتے ہیں۔ اس لئے ہم مقامی لوگ گھومنے پھرنے پہاڑوں اور جنگلوں میں نہیں شہر جاتے بلکہ ہم شہروں میں خوش ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سردیوں میں جب ہمارے ہاں برفباری شروع ہو جاتی ہے تو جوان لوگ شہروں کا رخ کرتے ہیں۔ امیر لوگ صرف گھومتے پھرتے ہیں جبکہ زیادہ تر لوگ محنت مزدوری بھی کرتے ہیں۔ اسی طرح پوری سردیاں یہ لوگ شہر میں گذار گرمیوں جب گرمی بڑھ جاتی ہے واپس گاوں آتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مقامی لوگ سیاحتی مقامات پر بہت کم جاتے ہیں۔ میں خود اگرچہ گھومنے پھرنے کا شوقین ہو لیکن ایک جگہ بار بار نہیں جاتا۔ اس لئے کمراٹ نزدیک ہونے کے باجود بہت کم آنا جانا ہوتا ہے۔ اس سال بھی اتفاق سے گئے ہم تھل میں تھے سوچا سری مئی جا کر واپس آ جائیں گے۔ سری مئی کمراٹ فارسٹ کا پہلا بڑا میدان ہے جہاں جشن کمراٹ وغیرہ منعقد ہوتا ہے۔
عید سے پہلے کی بات ہے تھل میں دوستوں کی سنگت چل رہی تھی اتنی میں کسی نے کہا کہ سری مئی چلتے ہیں۔ سری مئی کمراٹ کے پہلے میدان کا نام ہے جہاں جشن کمراٹ وغیرہ منعقد ہوتے ہیں۔ سوچا چلیں واک بھی ہوجائی گی اور وہاں کرکٹ ٹورنمنٹ چل رہا ہے مقامی نواجوانوں سے بھی مل لیں گے۔ عبد الجبار اور آصف صابر کو ساتھ لیا اور پیدل نکل گئے۔ جبار پرائمری سکول ٹیچر ہے اور آصف سٹوڈنٹ دونوں سے قریبی تعلق ہے، دونوں کا شمار تھل کے پڑھے لکھے باشعور نوجوانوں میں ہوتا ہے۔ مین روڈ پر تھوڑا سا پیدل گئے تو پیچھے سے جان فقیر لالا گاڑی چلاتے ہوئے آ گئے۔ جان فقیر لالا کے پاس اپنی گاڑی ہے اور تھل میں الجنت ہوٹل کے نام سے ایک ہوٹل چلا رہے ہیں۔ الجنت ہوٹل کا شمار کمراٹ کے پہلے اور اچھے ہوٹلوں میں ہوتا ہے۔
ہم نے بہت منع کیا لیکن جان فقیر لالا نے نہیں چھوڑا اور گاڈی میں زبردستی بٹھایا اور ابشار گئے۔ وہاں ہم نے رات کا کھانا قریبی گرمائی چراگاہ میں کھایا جہاں خان زادہ لالا نے دودھ سے بنی خالص چیزیں ہمیں کھلائی۔ رات الجنت ہوٹل میں گزری صبح ناشتہ بھی وہی کیا اور پھر جان فقیر لالا کے ساتھ ہی اگے کالا پانی اور نبل میدان گئے۔
سالوں بعد کمراٹ کے اتنے اندر تک گیا۔ کئی مقامات کو سالوں بعد دیکھا۔ بہت کچھ تبدیل ہوا ہے۔ اب ماضی کی طرح یہاں انسان دنیا سے کٹ نہیں جاتا بلکہ سری مئی سے لے کر ابشار اور اگے کالا پانی تک جاز نیٹ ورک کام کر رہا ہے۔ اسی طرح ایک سے بڑھ کر ایک ہوٹل بن گیا ہے جہاں آپ کو اسلام اباد جیسی سہولیات مل سکتی ہے۔ لیکن کمراٹ کا حقیقی ختم ہوگیا ہے۔ پہلے جب ہم آتے تھے تو یہاں جگہ جگہ جنگلی گلاب ہوتے تھے اب یہاں جگہ جگہ کچرا بکھرا پڑا ہے۔
روڈ کے دونوں طرف، آس پاس موجود پیدل ٹریک اور ہوٹلز، شاپس کے قریب درختوں اور جھاڑیوں میں جگہ جگہ کچرا بکھرا پڑا ہے۔نہ ہوٹلز مالکان خیال رکھتے ہیں نہ اور سیاح حضرات اور نہ ٹی ایم اے والے پورے کمراٹ میں ٹنوں کے حساب سے کچرا بکھرا پڑا ہے۔
ہوٹلز مالکان، مقامی لوگوں اور سیاح دوستوں سمیت ٹی ایم اے کلکوٹ کو اس بارے میں سوچنا چاہیے۔ اگر اسی طرح چلتا رہا تو آنے والے کچھ سالوں میں کمراٹ میں ہریالی اور درخت کم کچرا زیادہ نظر آئے گا۔
عبدالجبار، آصف صابر، جان فقیر اور اصل دین سمیت خان زادہ لالا کا بہت بہت شکریہ انہوں نے ہماری بہترین مہمان نوازی کی۔ اصل دین کمراٹ ویلی کے مشہور سیاحتی مقام ابشار میں الجنت ہوٹل کا منیجر ہیں اور انتہائی مخلص اور ملنسار انسان ہے۔ الجنت ہوٹل کا شمار کمراٹ کے ان چند ہوٹلوں میں ہوتا ہے جس کا مالک مقامی ہے۔ اس لئے یہاں مہمانوں کو قربانی کا جانور نہیں مہمان سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے سیاح دوستوں کو اگر کمراٹ ویلی میں کسی بھی قسم کا مسئلہ تو وہ بلا جھجک اصل دین سے اس نمبر پر رابطہ کر سکتے ہیں۔
03229824508