SOME MEMORABLE DAYS IN KUMRAT VALLEY-II A Paradise on Earth Kumrat Valley

Latest

SOME MEMORABLE DAYS IN KUMRAT VALLEY-II

کمراٹ میں چند یادگار دن
Some days in Kumrat Valley
تحریر خالد حسین 

 امان اللہ ہمارا پورٹر تھا جو ہمارے ساتھ تھل یا تل سے گیا تھا اور جس کا نمبر سید حسین علی گیلانی صاحب نے بھیجا تھا ہم رات کو ٹینٹ میں دبک کر سو گیے مگر وہ ٹینٹ کے باہر ہی محو استراحت تھا غائب تھا سارے دوست اٹھ گیے سواۓ افتخار وڑائچ کے جس طبیعت کچھ ناساز تھی ،ایسے میں ہم سب دوستوں کی ایک خامی ہے کہ ہم اللّه تعالیٰ کی بنائی ہوی چیزوں جنگل پہاڑ دریا پھولوں کلیوں پے تو سب فریفتہ ہوئے جا رہے ہوتے ہیں سب اس ذات اس رب العالمین کی ذات کی کاریگری کے دلدادہ دکھائی دیتے ہیں مگر بہت لازمی چیز نماز پڑھنا بھول جاتے ہیں ۔

صبح صبح کوئی برش کر رہا ہے کوئی شیو بنا رہا ہے کوئی فیئر اینڈ لولی لگا رہا ہے تو کوئی اپنے چہرے پر اگنے والے فالتو بالوں کی بیخ کنی میں مصروف نظر آیا کوئی ہاتھ میں پانی کی بوتل کوئی لوٹا تھامے جنگل کی طرف جاتا دکھا تو کوئی دریا کے ٹھنڈے ٹھار پانی سے منہ ہاتھ دھونے کے واجبات پورا کرتا دکھائی دیا ۔ادھر امان اللہ گھنے جنگل کے بیچ میں سے اپنی مادری زبان میں کچھ گنگناتا اٹکھیلیاں کرتا نمودار ہوا ایک ہاتھ میں دودھ سے بھرا برتن اور دوسرے میں لسی سے لبریز ایک بوتل تھی۔ اس کے ساتھ کچھ مقامی لوگ تھے جو شاید اس کے دوست تھے،دودھ اور لسی ہمارے حوالے کی اور خود دریا پر ٹراؤٹ پکڑنے کیلئے چلے گیے ۔

پھر دفعتاً میرے کانوں کے پردوں نے کسی مدھر کسی نشیلی آواز کو سنا یہ ایک چڑیا یا کوئی جنگلی پرندہ تھا جو پیار کا گیت الاپ رہا تھا موسیقی کے تمام رموز سے واقف، اس کی آواز میں ترنم اور مٹھاس کی بھرپور لے تھی اس کی آواز درختوں کے جھنڈ کے بیچوں بیچ ہوا کے دوش پر تیرتی مجھ ٹک پہنچ رہی تھی یوں لگا جیسے دور پہاڑوں کے آنگن میں کوئی عاشق اپنی محبوبہ کی یاد کی تسبیح گنگنا رہا ہو اس کی آواز مترنم اتار چڑھاؤ کی لے سے لبریز تھی ایک نہایت ہی خاص ترتیب سے آواز اوپر کو جاتی پھر اسی ترنم اسی نغمگی اسی سحر انگیزی کو برقرار رکھتے ہوئے نچلی سروں پر رقص کناں ہو جاتی سروں کی بندش میں ایسی کمال مہارت کہ مجال ہے جو کوئی سر ادھر سے ادھر ہو جائے سا رے گا ما پا دھا نی سا ۔رے گا ما پا ۔سا رے گا ما پا دھا نی سا رے گا ما پا ۔۔۔کا راگ اس کے شیریں اور لطافت سے بھرپور گیت اس کے گلے سے جلترنگ بجا رہا تھا موسیقی کے میٹھے اور مدھر رازوں کو چھیڑ رہا تھا ۔میں نے اپنا رخ اس آواز کی طرف کیا پھر اٹھ کر اس کی طرف چل دیا میں آگے آگے بڑھتا گیا اور وہ آواز اور میٹھی اور واضع اور مزیدار ہوتی گیئ پھر اچانک وہی آواز مجھے دریا کی جانب سے سنائی دی اسی جگہ کی طرف جہاں پرعلی الصبح میں نے جاگتی آنکھوں سے ایک سراپا حسن ایک سراپا نور مہ جبیں کا دیدار کیا تھا میں واپس مڑا اور اس جگہ جا پہنچا ۔سورج کی سنہری کرنیں پہاڑوں کی چوٹیوں کو روشن کر رہی تھیں مگر نیچے ویران گھنا جنگل دریا کنارہ اس کے پانی سے نبرد آزما ایک سوکھے درخت کا مردہ جسم دریا کی لہریں اس سے ٹکراتی اس کو بھگو کر نہلا کر آگے گزر جاتیں مگر وہ بے جان لاشہ وہیں پڑا اپنی عاقبت کی گھڑیاں گزار رہا تھا ۔
(جاری)